وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغانستان سے آپریٹ ہونے والے دہشتگردوں کو کھلی چھٹی حاصل ہے، ہمارے تمام تر سنجیدہ کوششوں کے باوجود افغان حکومت امن کے قیام میں ہمارا ساتھ دینے سے گریزاں ہے۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ سے خطاب کرتےہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، وہاں بسنے والے لوگ ہمارے بہن بھائی ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ 2 ہزار کلو میٹر کا بارڈر شیئر کر تے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ افغان شہریوں کی خلوص نیت کے ساتھ مدد کی، محدود وسائل کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان شہری دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر رہے، ہم نے ان کی خدمت کی۔
اس کے باوجود دہشت گرد وہاں سے آپریٹ کر رہے ہیں، فتنتہ الخوارج کو کھلی چھٹی حاصل ہے، ان دہشت گردوں نے ہمارے شہریوں، افواج پاکستان کے جوانوں اور افسران ، پولیس اہلکاروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہید کیا، حالیہ واقعات کے بعد ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر لوگ کابل گئے، انہیں بتایا گیا، کہ ہم ہمسایہ ملک ہیں، ہمیں قیامت تک ساتھ رہنا ہے، یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم نے ساتھ کیسے رہنا ہے، پُر امن رہے گے تو دونوں ملک ترقی کر سکیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہماری کوششوں کے باوجود کوئی حل نہیں نکل سکا، جب یہ حملہ ہو رہا تھا، افغان وزیر خارجہ اس وقت بھارت میں موجود تھے، ہمیں مجبورا انہیں جواب دینا پڑا۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکومت نے اس وقت کہا کہ ہم سیز فائر چاہتے ہیں، جس پر ہم نے 48 گھنٹے کے لیے سیز فائر کیا، اگر افغان حکام ہماری جائز شرائط پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں، اب گیند اُن کے کورٹ میں ہے، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو بات کو آگے بڑھائیں۔
ہمارے دوست ممالک، خاص طور پر قطر، اس معاملے کے حل کے لیے کوششیں کر رہا ہے، امیر قطر نے مصر کے دورے کے دوران کہا کہ آپ کے خلاف حملہ نہیں ہونا چاہیے، اس دوران انہوں نے اپنے کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپہ سالار عاصم منیر کی قیادت میں افغانستان کو منہ توڑ جواب دیا، جو جنازے ہم نے پڑھے، وہاں ان شہدا کے اہلخانہ نے مجھے کہا کہ ہم ان شہیدوں پر فخر ہے۔
2018 میں فتنتہ الخوارج کا خاتمہ ہو گیا تھا، کیا وجہ ہے کہ دوبارہ اس فتنے نے سر اٹھایا، اس وقت کی حکومت نے ہزاروں دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دی اور انہیں خوش آمدید کہا، یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس فتنے نے دوبارہ سر اٹھایا۔
افغان حکومت کی جانب سے سیز فائر کی درخواست پر وجود میں آئی ہے، ٹھوس شرائط پر لانگ ٹرم سیز فائر ثابت ہو، اگر صرف وقت حاصل کرنے کے لیے یہ کیا گیا تو ہمیں اسے قبول نہیں کریں گے۔
غزہ میں امن معاہدہ ہوگیا، تاہم 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جب امن معاہدے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کوششیں کر رہے تھے، اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔
تاہم، اس دوران وہ لوگ جو وہاں امن نہیں چاہتے تھے، وہ یہاں پر سیاست کر رہے تھے، غزہ میں ہر جگہ جب شہادتیں ہو رہی تھیں تو یہ لوگ اُس وقت کہاں تھے۔
بجائے ان لوگوں کی مدد کرنے کے سیاست کرنا، کیا یہ اسلام ہے، یہ کون سے بھائی چارہ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ غزہ میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، خصوصی طور پر قطر، ترکیہ، مصر، سعودی عرب، یو اے ای نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان اور انڈونیشیا بھی اس میں شامل ہیں، ہم سب نے مل کر یہ کردار ادا کیا۔
قیام امن کے بعد غزہ کے لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور وہاں پر جاری خون ریزی ختم ہوئی۔
فلسطین کی ریاست قائم ہونی چاہیے، ہمارے ان بہن بھائیوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نکلنا چاہیے۔
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ ہو گیا، جلد ہی اگلی قسط ملی گی، آئی ایم ایف کی یہ آخری قسط ہونی چاہیے۔
کیا پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھاکہ جو لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی، ان لوگوں نے خواب دیکھا تھا کہ پاکستان اقوام عالم میں ترقی کرے گا اور اسلامک دنیا کو لیڈ کرے گا۔