مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ایران اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود چین کی مدد سے دوبارہ اسلحہ سازی کر رہا ہے۔ ایجنسیوں نے مزید کہا کہ تہران گزشتہ ماہ دوبارہ عائد کی گئی پابندیوں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنا بیلیسٹک میزائل پروگرام دوبارہ تعمیر کرنے پر کام کر رہا ہے۔
یورپی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ایران کی بندر عباس بندرگاہ پر چین سے آنے والے “سوڈیم پرکلوریٹ” کے کئی کھیپیں پہنچی ہیں۔ یہ ایک ضروری مواد ہے جو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلیسٹک میزائلوں کو طاقت فراہم کرنے والے ٹھوس ایندھن کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
سوڈیم پرکلوریٹ کے کئی کھیپوں کی ایران آمد
ذرائع نے بتایا کہ یہ کھیپیں گزشتہ 29 ستمبر سے آنی شروع ہوئیں اور ان کا وزن 2,000 ٹن تھا۔ ایران نے انہیں چین کے سپلائرز سے اسرائیل کے ساتھ جون میں ہونے والے مسلح تنازع کے بعد خریدا تھا تاکہ جنگ میں نقصان پہنچنے والے اپنے میزائل ذخیرے کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حال ہی میں آنے والی کھیپوں کی مقدار پچھلی مقداروں سے بہت زیادہ ہے۔ پابندیاں دوبارہ عائد ہونے کے بعد 10 سے 12 کھیپوں کا سراغ لگایا گیا ہے جو ایران کی جانب سے دوبارہ اسلحہ سازی کی رفتار میں تیزی کو ظاہر کرتا ہے۔
چین اقتصادی اور سفارتی طور پر ایران کا ایک اہم اتحادی ہے اور پابندیوں کے باوجود سمگلنگ کے پیچیدہ نیٹ ورکس کے ذریعے ایرانی تیل کی زیادہ تر برآمدات خریدنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان نیٹ ورکس میں ٹینکروں کا “تاریک فلیٹ” بھی شامل ہے جو ایرانی تیل کے ماخذ کو چھپاتا ہے۔ یورپی سکیورٹی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسی طرح کے نیٹ ورکس، جن میں فرضی شیل کمپنیاں شامل ہیں اور بعض پر امریکی پابندیاں بھی عائد ہیں، اس وقت سوڈیم پرکلوریٹ ایران کو فراہم کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ چین ممکنہ طور پر یہ جانتا ہے کہ یہ برآمدات بالواسطہ طور پر ایران کے میزائل پروگرام کی حمایت کر رہی ہیں لیکن وہ اسے خودمختاری کا معاملہ اور ان برآمدات کے بارے میں اپنے فیصلے خود کرنے کا ایسا حق سمجھتا ہے جس پر اقوام متحدہ نے واضح طور پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ واضح رہے نقل و حمل میں کے لیے استعمال ہونے والے کچھ چینی بحری جہاز اور ادارے امریکی پابندیوں کے تحت آتے ہیں۔
پابندیوں کا دوبارہ نفاذ
یہ کھیپیں اقوام متحدہ کی پابندیوں جو سنیپ بیک کے خودکار بحالی کے طریقہ کار کے تحت ستمبر کے آخر میں نافذ کی گئیں کے دوبارہ نفاذ کے بعد آئی ہیں۔ یہ پابندیاں اس لیے نافذ کی گئی ہیں کیونکہ تہران نے 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ نئی پابندیوں کے تحت ایران کو جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلیسٹک میزائلوں سے متعلق کسی بھی سرگرمی سے منع کیا گیا ہے، ۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایران کو ایسے مواد یا امداد فراہم کرنا روکیں جو اس طرح کے نظام کی تیاری میں معاون ہوں۔
چین اور روس دونوں ان پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں۔ دونوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں ایرانی جوہری مسئلے کو حل کرنے کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ یاد رہے اگرچہ سوڈیم پرکلوریٹ کا نام ان مواد میں شامل نہیں ہے جن کی ایران کو برآمد پر واضح طور پر پابندی ہے لیکن اسے امونیم پرکلوریٹ کی تیاری کے لیے بنیادی مواد سمجھا جاتا ہے جو ایک بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ آکسیڈائزر ہے اور بیلیسٹک میزائلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صریح متن کی عدم موجودگی بیجنگ کو پابندیوں کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے قانونی گنجائش فراہم کر سکتی ہے۔