تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی اور اُن کے چھوٹے بھائی انس رضوی سمیت جماعت کی قیادت کے چند اراکین اِس وقت کہاں ہیں یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران اور آئی جی پنجاب کے ترجمان کو اس ضمن میں باربار پوچھنے پر بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ پنجاب کے شہر مریدکے میں پیر کی علی الصبح پولیس اور سکیورٹی اداروں کی کارروائی کے نتیجے تحریک لبیک کے ’غزہ مارچ‘ کے شرکا کو منتشر کر دیا گیا تھا، اس کارروائی کے دوران پنجاب پولیس کے مطابق ایک ایس ایچ او اور تین مظاہرین سمیت پانچ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
تاہم اس احتجاج میں موجود سعد رضوی اور انس رضوی اس وقت کہاں ہیں، اس حوالے سے حکام کی جانب سے تاحال کچھ نہیں بتایا گیا ہے جس کے باعث چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب لاہور سے گرفتار ہونے والے تحریک لبیک کے 70 کے قریب کارکنوں کو پیر کے روز صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد اُن کا 11 روزہ جسمانی ریمانڈ لے لیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج منظرعلی گل نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔
ٹی ایل پی کارکنوں پر توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے اور انھیں زخمی کرنے جیسے الزامات ہیں۔
ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ ناصرف سعد رضوی اور انس رضوی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا بلکہ جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے چند ارکان، جو سٹیج پر موجود تھے، ان کے حوالے سے بھی کچھ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
گذشتہ روز کیے گئے آپریشن سے قبل بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سعد رضوی اور انس رضوی سٹیج پر موجود تھے۔ اس موقع پر سعد رضوی نے کنٹینر پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پولیس فورس کو درخواست کی تھی کہ ’شیلنگ روک دیں کیونکہ ہم کوئی غلط کام کرنے نہیں جارہے ہم تو مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلئے اسلام آباد جانا چاہ رہے ہیں۔‘
اس کے بعد کے کچھ کلپس بھی موجود ہیں تاہم کے نیوز اردو ان کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
پیر کی رات مریدکے میں ہونے والے پولیس آپریشن کے بعد پولیس نے جو مقدمہ درج کیا ہے اس میں سعد رضوی کے متعلق الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’سٹیج پر موجود سعد رضوی نے اپنے قریب پڑا ہوا پستول اٹھا کر ایس ایچ او فیکٹری ایریا پر جان سے مار دینے کی نیت سے سیدھی فائرنگ کی جس سے ایس ایچ او کو پیٹ میں فائر لگے اور وہ زخمی ہو کر گر گئے اور بعدازاں زخموں کو تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔‘
ایف آئی آر میں انس رضوی پر بھی اقدام قتل جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’انس رضوی نے بھی اپنی رائفل سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پولیس افسران کو فائر لگے اور وہ زخمی ہو گئے۔‘
ایف آئی آر میں سعد رضوی اور انس رضوی کی گرفتاری کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور موقع سے چار ملزمان کو حراست میں لیے جانے کا لکھا گیا جن کے نام شاہد علی، رضون، زین کھوکھر اور مدثر لکھے گئے ہیں۔