شام کے صدر احمد الشرع نے سعودی عرب کی شام میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دنیا بھر سے دعوت دیے جانے کو سراہا اور کہا شام میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سعودی عرب ایک کلید کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بشارالاسد رجیم کے زمانے سے بین الاقوامی تنہائی میں پڑا شام بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے محروم ہو گیا تھا۔
انہوں نے سعودی میزبانی میں منعقدہ ‘فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس’ سے خطاب کرتے ہوئے کہا جب آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کی حکومت کے بعد ہم نے حکومت سنبھالی تو پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کیا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ کلید یہی ہے۔
صدر احمد الشرع کے اس خطاب کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی کانفرنس میں موجود تھے۔ الشرع نے کہا سعودی عرب خوشحالی، استحکام اور وسیع ترقی کی طرف گامزن ایک اہم مملکت ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان طویل عرصے سے خطے کو اپنے مختلف تجربے سے روشناس کرا رہے ہیں۔
ان کا ویژن 2030 نہ صرف سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی کو پائیداری کی منزلوں کی طرف لے کے چل رہا ہے۔ بلکہ سعودی اثرات علاقے اور پوری دنیا میں محسوس کیے جانے لگے ہیں۔ اپنی سرحدوں سے باہر بھی سعودی عرب ہر جگہ ایک مؤثر کھلاڑی کے طور پر جانا مانا جاتا ہے۔
شامی صدر نے کہا سعودی ویژن اب ہر طرف بروئے کار ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے اس بڑی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر کے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو ایک اہم موقع فراہم کیا ہے۔ ہمیں دعوت دی گئی اور ہم یہاں چلے آئے۔ بلکہ اس انتظام کا حصہ بننے کے لیے پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا شام جسے بشارالاسد رجیم نے جنگی تباہی کا مرکز بنانے کے علاوہ بین الاقوامی برادری سے کاٹ دیا تھا اس کے جانے کے بعد اب تک شام میں 28 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آچکی ہے۔
ہم نے سرمایہ کاروں کی سہولت اور ضرورت کو سمجھا ہے۔ اپنے ہاں ایک طرف حالات کا رخ امن کی جانب موڑ دیا ہے وہیں سرمایہ کاری سے متعلق قوانین کو آسان کر دیا ہے۔
انہوں نے شام میں سرمایہ کاری کے لیے نکتہ نظر کو واضح کرنے کے لیے ایک عرب کہاوت سنائی ‘ مجھے شکار کرنا سکھا دیں ہر روز کھانا نہ کھلائیں’ ہم اسی راستے پر ہیں۔
صدر الشرع نے مزید کہا شام میں بے شمار مواقع ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں ہر ایک لیے جگہ اور گنجائش ہے۔ یہ مواقع میری دانست میں دنیا اور سرمایہ کاروں کے لیے بہت مفید رہیں گے۔ نیز یہ کہ شام تاجروں کے سامان کی نقل و حمل کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ جیسا کہ صدیوں سے رہا ہے۔ ہم نے اپنی بکھری ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک عظیم کام ہے۔ پچھلی رجیم نے ملک کو خانہ جنگی دی تھی ہم عوام کو سلامتی و خوشحالی کی راہ دکھا رہے ہیں۔ ایک تباہ کردیے گئے شام کو از سر و تعمیر کر رہے ہیں۔
صدر الشرع جب’ فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس’ سے خطاب کر رہے تھے تو ان کو سننے والوں میں ولی عہد اور امریکی صدر ٹرمپ کے بیٹے ٹرمپ جونیئر بھی موجود تھے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب کے بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے آئے سرمایہ کار ، سرمایہ کار کمپنیوں کے سربراہان اور نمائندے بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا ماہ اکتوبر کے شروع میں عالمی بینک نے شام کی تعمیر نو کی لاگت کا ایک محتاط تخمینہ لگاتے ہوئے بتایا ہے کہ اس مقصد کے لیے 216 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اسی طرح ماہ مئی کے دوران ہمارا قطر ، ترکیہ اور امریکی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے۔ یہ کنسورشیم تباہ شدہ سیکٹر کو بحال کرے گا۔
صدر الشرع نےشام میں متنوع سرمایہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے زراعت اور توانائی سے لے کر سب اہم شعبوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس پس منظر میں شام میں دستیاب قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کا بھی حوالہ دیا اور کہا وہ دیکھتے ہیں کہ اگلے چند برسوں میں شام دنیا کی نمایاں معیشتوں میں سے ایک ہوگا۔
کیونکہ ہم نے امداد لینے کے راستے کو پسند کرنے کے بجائے دنیا کو سرمایہ کاری کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ انہوں نے بڑی امریکی کمپنیوں کی طرف سے شام میں سرمایہ کاری کے فیصلے کو سراہا اور کہا ان کے ملک نے تعمیر نو کے اس مرحلے میں بھی سرمایہ کاری کا راستہ چنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا امریکہ کی بڑی سرمایہ کار کمپنیوں نے شام میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی یے۔ اسی طرح سعودی اور قطری کمپنیوں نے شام میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ نیز کسی پر بوجھ بننے کا رجحان نہیں رکھتا بلکہ علاقے کی ترقی ، استحکام اور خوشحالی میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
شامی صدر نے دوسرے ملکوں میں موجود شامی پناہ گزینوں کو واپس لانے کی پالیسی کا ذکر کیا۔ اقوام متحدہ کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دس لاکھ لوگ دوسرے ملکوں سے واپس آچکے ہیں ۔مزید یہ کے تقریبا بیس لاکھ اندرونی طور پر سالہا سال سے بے گھر ہونے والے بھی اپنے شہروں اور قصبوں میں واپس پہنچ گئے ہیں۔