امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں چینی ہم منصب شی جنپنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو ’زبردست ملاقات‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چینی صدر ایک ’عظیم رہنما‘ ہیں۔
ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بہت سے اہم نکات اتفاق ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین امریکہ سے بڑی مقدار میں سویابین خریدنا شروع کر دے گا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد کسی قسم کا کوئی اعلان تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
چینی براڈکاسٹر سی سی ٹی وی کے مطابق، دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک گھنٹہ 40 جاری رہی جو کہ طے شدہ دورانیہ سے زیادہ تھی۔
ملاقات کے دوران ٹرمپ کے ہمراہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو، امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر، وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ، کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹنک، چیف آف سٹاف سوسی وائلز اور چین میں امریکی سفیر ڈیوڈ پرڈیو بھی موجود تھے۔
دوسری جانب، چینی وفد میں صدر شی کے علاوہ ان کے چیف آف سٹاف کائی کیو، وزیر خارجہ وانگ یی، نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ سو، نائب وزیر اعظم ہی لائیفنگ، وزیر تجارت وانگ وینتاو اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے چیئرمین ژینگ شانجی شامل تھے۔

ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ کا کہنا تھا نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ شی جنپنگ ملاقات کامیاب رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں کے مابین ’ہمیشہ سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔‘ شی جنپنگ نے اس کے جواب میں کہا کہ ٹرمپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
صدر شی جنپنگ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کئی بار کہا ہے کہ ’چین اور امریکہ کو شراکت دار اور دوست ہونا چاہیے۔‘
شی جنپنگ کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے بڑے ممالک ہونے کے ناطے چین اور امریکہ مشترکہ طور پر اپنی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں کیونکہ دنیا کو مشکل مسائل کا سامنا ہے۔
ملاقات سے قبل ایک رپورٹر نے امریکی صدر سے سوال کیا کہ آج ایک معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ایسا عین ممکن ہے۔
دونوں صدور کے درمیان ملاقات میں جن امور پر بات ہوئی ہو گی ان میں چین پر امریکی ٹیرف کا معاملہ، نایاب معدنیات کی سپلائی، اے آئی چپس اور ٹک ٹاک شامل ہے۔