اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا اور ان کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ وزیر اعلیٰ کے انتخابی عمل کو انتظامی نہیں بلکہ آئینی حوالے سے دیکھے، جب تک علی امین گنڈاپور کا استعفی منظور نہیں ہوتا تب تک نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا۔
اپوزیشن کا مزید کہنا تھا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے 15 اکتوبر کو علی امین گنڈاپور کو گورنر ہائوس بلایا ہے تو اس کا انتظار کرنا چاہیئے تھا، اپوزیشن کا مزید کہنا تھا کہ مستعفی وزیر اعلیٰ کا استعفی منظور ہو جانے کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہیے تھا۔
اپوزیشن کے مطابق ہم نے وکلاء کی ٹیم کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے۔
قبل ازیں، حکومتی وفد نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی جس میں خیبرپختونخوا کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
جے یو آئی (ف) کے میڈیا سیل سے ’ایکس‘ پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کے وفد میں وفاقی وزرا احسن اقبال، انجینئر امیر مقام اور اعظم نذیر تارڑ شامل تھے۔
اسلام آباد:
— Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan (@juipakofficial) October 13, 2025
حکومتی وفد کی امیر جےیوآئی مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ آمد
مسلم لیگ نون کے رہنماوں کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات
ملاقات میں وفاقی وزیر احسن اقبال، انجنئیر امیر مقام، عظم نذیر تارڈ شریک
ملاقات میں مولانا لطف الرحمان، علامہ راشد محمود سومرو، ایم پی اے سجاد… pic.twitter.com/T5EcACRT4X
ملاقات کے دوران جے یو آئی (ف) سے مولانا لطف الرحمٰن، علامہ راشد محمود سومرو، ایم پی اے سجاد خان اور مخدوم آفتاب شاہ نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں خیبرپختونخوا کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ فریقین نے اتفاق کیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں آج ہونے والا وزیراعلیٰ کا انتخاب ایک غیر آئینی عمل ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اجلاس کے شرکا نے واضح کیا کہ صوبائی اسمبلی کی حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اس انتخابی عمل کو متنازع اور غیر قانونی سمجھتی ہیں۔
فریقین نے مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس اور پشاور ہائی کورٹ اس متنازع پارلیمانی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق صورتحال کا جائزہ لیں گے۔
مزید کہا گیا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس معاملے پر اپنے وکلا کے پینل کے ذریعے عدالت سے رجوع کریں گی تاکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے عمل کو چیلنج کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں نئے قائدایوان کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں ہوا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار سہیل آفریدی 90 ووٹ لے کر صوبے کے 30ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
تاہم، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اس انتخاب کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا آج ہونے والا انتخاب غیر آئینی ہوگا، جب تک علی امین کا استعفیٰ منظور نہیں ہوتا وزیراعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی تصور ہوگا۔
انہوں نے سوال کیا کہ نئے وزیر اعلی خیبرپختونخوا کا نوٹی فکیشن کون گرے گا، علی امین گنڈاپور کے استعفے سے مطمئن نہیں ہوں، اطمیناں میرا آئینی حق ہے، علی امین بدھ کو میرے پاس آجائیں، انہیں چائے بھی پلاؤں گا اور استعفیٰ بھی منظور ہو جائے گا۔
گورنر خیبرپختونخوا نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے آفس کو آپ کے استعفوں کی دو کاپیاں موصول ہوئیں، آپ کے استعفوں کی کاپیوں پر کیے گئے دستخط ایک جیسے نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے 4 امیدوار مد مقابل تھے، مسلم لیگ (ن)کے سردار شاہ جہان، پیپلزپارٹی کے ارباب زرک اور جمعیت علما اسلام کے مولانا لطف الرحمٰن مقابلے میں شامل تھے، تاہم پی ٹی ائی کے سہیل آفریدی وزیراعلی کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 145 ہیں ، پی ٹی آئی حمایت ہافتہ آزاد اراکین کی تعداد 92 ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 53 ہیں، تاہم اپوزیشن نے نئے وزیراعلیٰ کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔