پاکستان اور افغان طالبان کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق، 6 نومبر کو استنبول میں مذاکرات کا نیا دور طے

پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ استنبول مذاکرات کے بعد پاکستان اور افغان طالبان کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

اعلامیہ ترکیہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے قواعد و ضوابط 6 نومبر سے استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیے جائیں گے۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق ترکی اور قطر کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان 25 سے 30 اکتوبر تک استنبول میں مذاکرات ہوئے۔

یہ مذاکرات دوحہ میں 18 اور 19 اکتوبر کو طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کو مضبوط بنانے کے لیے منعقد کیے گئے۔

فریقین نے جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور تصدیق کا ایک مشترکہ نظام تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا ہے جو کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار فریق پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھے گا۔

اعلامیے کے مطابق ثالث ممالک ترکی اور قطر نے دونوں فریقوں کے مثبت کردار کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنے تعاون کو جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ترکی کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر لکھا کہ ’افغانستان وفد کا یہ کہنا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اصل میں افغان سر زمین پہ پاکستانی پناہ گزین ہیں جواپنے گھروں میں پاکستان واپس جا رہے ہیں، یہ کیسے پناہ گزین ہیں جو اپنے گھروں میں انتہائی تباہ کن اسلحہ سے مسلح ہو کر جا رہے ہیں اور سڑکوں کے ذریعے بسوں ٹرک یا گاڑیوں پہ سوار نہیں جا رہے بلکہ چوروں کی طرح پہاڑوں میں دشوار گزار رستوں سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں، یہ تاویل ہی افغانستان کی نیت کے فتور خلوص سے عاری ہونے کا ثبوت ہے۔‘

Pakistan and Afghan Taliban talks

خواجہ آصف نےنجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے تمام امیدیں ختم ہو چکی تھیں، اب ’ کچھ آثار نظر آرہے ہیں’، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ کچھ حتمی نہیں کہہ سکتے۔

مذاکرات کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مختلف مسودے تیار کیے جا رہے ہیں، اور جب ایک فریق کسی مسودے سے متفق ہوتا ہے تو اسے دوسرے فریق کو ترمیم کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ دوبارہ نظرثانی کے لیے واپس آتا ہے۔

وزیردفاع نے کہا کہ ’آخرکار ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مختلف مسودے تبادلے میں ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ امید کی کچھ کرن نظر آرہی ہے؛ بہت محتاط انداز میں امید پسندی موجود ہے، امید کرتے ہیں کہ اس سے کوئی نتیجہ نکلے۔‘

اپنا تبصرہ لکھیں