پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تیزی نے انسانی حقوق کے نگران اداروں کی شدید تنقید کو جنم دیا ہے، ایسے زیادہ تر مقابلے ایک نئی قائم کردہ خصوصی فورس کی جانب سے کیے گئے ہیں، انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کو فوجداری نظامِ انصاف کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنوری 2025 سے اب تک صوبے میں 500 سے زائد مبینہ مقابلے ہو چکے ہیں جن میں 670 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، یہ تعداد ملک کے دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔
ایچ آر سی پی نے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ان واقعات کے ’بڑھتے ہوئے معمول‘ پر شدید تشویش کا اظہار کیا، جس کے مطابق یہ رجحان فروری 2025 میں پنجاب پولیس کے خصوصی وِنگ ’کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ‘ (سی سی ڈی) کے قیام کے بعد سےبڑھتا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ایچ آر سی پی کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ سی سی ڈی، جسے اصل میں جرائم پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا تھا، اب ایک متوازی پولیس فورس بن چکی ہے جسے ایف آئی آر کے اندراج، مشتبہ افراد کو حراست میں لینے اور خطرناک مجرموں کے خلاف جان لیوا کارروائیاں کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں‘۔
انسانی حقوق کے ادارے نے خبردار کیا کہ یہ رجحان قانون کی حکمرانی اور آئینی ضمانتوں، خصوصاً منصفانہ ٹرائل کے حق کو کمزور کرتا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت زیادہ توجہ کا مرکز بنا جب رحیم یار خان میں قتل کا مشتبہ ملزم خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
پولیس کے مطابق طیفی بٹ کو کراچی سے لاہور منتقل کرتے وقت اس کے ساتھیوں نے سی سی ڈی ٹیم پر فائرنگ کر دی، جس کے بعد جوابی فائرنگ میں وہ ہلاک ہو گیا، تاہم ایچ آر سی پی نے اس واقعے کو ’خطرناک رجحان‘ کی ایک مثال قرار دیا۔
سی سی ڈی کو پنجاب حکومت نے منظم جرائم، دہشت گردی اور بڑے مجرمانہ گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے تشکیل دیا تھا، حکومتی عہدیدار اس کی ’کامیابیوں‘ کی تعریف کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس نے اسٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی اور بڑے مجرموں کو نشانہ بنایا ہے۔
تاہم بڑھتی ہوئی ہلاکتوں نے قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی میں تشویش پیدا کر دی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مقابلوں میں ایک ہی طرزِ عمل دکھائی دیتا ہے: پولیس مشتبہ شخص تک پہنچتی ہے، وہ فائرنگ کرتا ہے، اور پھر جوابی فائرنگ میں مارا جاتا ہے، یوں گرفتاری، تفتیش یا عدالتی کارروائی کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔
ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا کہ ’کوئی بھی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا، حتیٰ کہ سنگین ترین جرائم کے مرتکب افراد کو بھی آئین کے تحت انصاف کے تقاضوں اور منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے‘، ادارے نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات عوام کے قانونی اداروں پر اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور ریاستی تشدد کے خطرناک رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔

سی سی ڈی کا مؤقف
سی سی ڈی پنجاب کے ترجمان نے ایچ آر سی پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں صرف سی سی ڈی ہی وہ ادارہ نہیں جسے مجرموں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔
ان کے مطابق دیگر ادارے بشمول اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ (اے سی ڈی) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بھی اسی نوعیت کے اختیارات رکھتے ہیں۔
انہوں نے اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایچ آر سی پی نے بغیر ثبوت کے محض الزامات عائد کیے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ سی سی ڈی ایک اعلیٰ درجے کا تحقیقی ادارہ ہے جو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے اور ماورائے عدالت کارروائیوں، غیر ضروری طاقت کے استعمال یا تشدد کے خلاف ‘زیرو ٹالرنس’ پالیسی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی سی ڈی کا ہدف سنگین اور منظم جرائم میں ملوث عناصر ہیں، جو عموماً گرفتاری کے وقت مزاحمت کرتے ہیں اور فائرنگ بھی کرتے ہیں، اس لیے پولیس افسران بطور پالیسی صرف ‘ضروری اور محدود طاقت’ استعمال کرتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق ’اب تک ایک بھی واقعہ ایسا رپورٹ نہیں ہوا جس میں سی سی ڈی پر ماورائے عدالت کارروائی یا تشدد کا الزام ثابت ہوا ہو، اگر کسی واقعے میں طاقت کے غیر ضروری استعمال کی شکایت موصول ہو تو اس پر فوری اور قانونی کارروائی کی جاتی ہے‘۔