ڈپریشن کی دوائیں: وزن، دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر پر حیران کن اثرات — نئی تحقیق میں انکشافات

حالیہ تحقیق میں ماہرین نے ڈپریشن کم کرنے والی عام ادویات کے جسمانی اثرات کا موازنہ کیا ہے، جس سے انکشاف ہوا کہ کچھ دوائیں وزن میں اضافہ کرتی ہیں، کچھ دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہوتی ہیں، جب کہ چند دوائیں وزن میں کمی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔

 یہ اپنی نوعیت کی پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں ڈپریشن کم کرنے والی 30 عام ادویات کے مضر اثرات کی درجہ بندی کی گئی۔
تحقیق میں 151 مطالعات کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 58 ہزار سے زائد مریض شامل تھے۔

نتائج کے مطابق، بعض دواؤں سے صرف آٹھ ہفتوں میں مریضوں کا وزن تقریباً 2 کلو بڑھا، جب کہ کچھ ادویات نے دل کی دھڑکن میں فی منٹ 21 دھڑکنوں تک فرق پیدا کیا۔

کون سی دوا کیا اثر کرتی ہے؟

  • ایگو میلاٹین (Agomelatine): اوسطاً 2.4 کلو وزن میں کمی

  • میپروٹیلین (Maprotiline): تقریباً 2 کلو وزن میں اضافہ

  • فلوووکزامین (Fluvoxamine): دل کی رفتار کم کرتی ہے

  • نورٹرپٹیلین (Nortriptyline): دل کی رفتار بڑھاتی ہے (فی منٹ 21 دھڑکنوں کا فرق)

  • ڈوکسیپین (Doxepin) اور نورٹرپٹیلین کے درمیان بلڈ پریشر میں 11 ملی میٹر مرکری کا فرق دیکھا گیا۔


تحقیقی ماہرین کا کہنا ہے

کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر اتھیشان اروموہم کا کہنا ہے کہ “ڈپریشن کم کرنے والی تمام دوائیں ایک جیسی نہیں ہوتیں، ان کے فرق بعض اوقات کلینیکل طور پر اہم ہو سکتے ہیں، جیسے دل کے دورے یا فالج کے خطرات میں اضافہ۔”

پروفیسر اولیور ہاؤس نے کہا کہ “یہ فرق صرف انفرادی مریضوں کے لیے نہیں بلکہ پوری آبادی کے لیے اہم ہیں، کیونکہ چھوٹے فرق بھی بڑے اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔”


مریضوں کے لیے ماہرین کا مشورہ

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ کرنا نہیں، بلکہ انہیں بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ اپنے معالج سے مشورہ کر کے بہتر دوا کا انتخاب کر سکیں۔

ماہرین نے واضح کیا کہ کسی کو بھی یہ خبر پڑھ کر اپنی دوا بند نہیں کرنی چاہیے۔


فرضی مثال — دوا کا انتخاب کیسے مختلف ہوتا ہے؟

  • سارہ (32 سال): وزن بڑھنے سے پریشان — بہتر انتخاب: ایگو میلاٹین یا سرٹرالین

  • جان (44 سال): ہائی بلڈ پریشر کا مریض — ایسی دوا چاہیے جو دل کی دھڑکن پر اثر نہ ڈالے

  • جین (56 سال): کولیسٹرول زیادہ — کم سائیڈ ایفیکٹ والی دوا موزوں


تحقیق کہاں شائع ہوئی؟

یہ تحقیق معروف میڈیکل جرنل The Lancet میں شائع ہوئی ہے، اور ماہرین کے مطابق مستقبل میں اس کی بنیاد پر مریضوں کے لیے زیادہ موزوں اور محفوظ علاج کی راہیں ہموار ہوں گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں